رزق کی مشکل یا کوئی پریشانی یہ عمل کیجئے!
میرے حضرت سید خواجہ عبداللہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک عمل دیا تھا کہ یہ کپڑے کی پیسے رکھنے والی تھیلی پر پڑھ کے توکسی کو دے دیا کر‘ میرے پاس جو احباب آتے ہیں، جن کو رزق کی مشکل ہے، کوئی پریشانی ہے تو ان سے کہا جائے کہ یہ تھیلی لے لو اور پیسے اس میں ڈالا کرو اور تھیلی سنت سمجھ کے لو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کے پاس ایک تھیلی تھی اس میں گٹھلیا ںرکھتے تھے اور تسبیح بھی تھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں یہ بات ملتی ہے کہ ان کے پاس ایسی تھیلی ہو تی تھی اور اس میںدرہم اور دینار رکھتے تھے، رقم رکھتے تھے ۔ آپ بھی ایسی تھیلی سلوا لیں اس میں اپنےپیسے رکھیں اورزیادہ تاثیر چاہیے تو صبح وشام ورنہ دن میں ایک دفعہ اس میں 129 مرتبہ سورۃ الکوثر پڑھ لیا کریں۔
دل و دماغ میں اللہ کو بسائیں
آج کے بعدخود سے یہ وعدہ کرلیں کہ دل اور دماغ میں اللہ کریم کو بسانا ہے۔ اندر سے اٹھنے والے جذبات، اندر سے اٹھنے والی سوچیں، اندر سے اٹھنے والی چاہتیں اور اندر سے اٹھنے والی خواہشات، اللہ تعالیٰ کے تابع کر دیں تو سمجھ لیں کہ یہ’ ’دوبرتن‘‘ اللہ کو دے دیئے اگر اللہ اور اس کے حبیب سرورِکونینﷺ کے تابع کردیں تو یہ’ ’دوبرتن‘‘پھر اُسی کے ہیں اور اگر تابع نہیں کیے تو کچھ کمی ہے ۔ سچی بات ہے تو پھراگر وہ کہہ دیتے ہیں جیسے میں نے پہلے واقعہ سنایا کہ ایک صاحب ان پڑھ تھے ۔ وہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آتے تھے،بابا جی کو شیخ غصّے میں خنزیر کہہ دیتے تھے۔ وہ بابا جی مجھ سے فرمانے لگے کہ پہلے پہل تو سمجھ نہیں آیا کہ خنزیر کیوں کہتے ہیں ، پھر سمجھ آیا کہ سچ کہتے تھے، کسی کو اندھا کہا تو سچ کہتے تھے۔ کسی کو پاگل کہا تو سچ کہتے تھے، جو اللہ اور اس کے حبیبﷺ کی نہ مانے وہ پاگل ہی ہے۔اصل میں کوئی اپنے جسم کو بیمار سمجھے اور اس کو اس کا مرض بتا دیں تو خوش ہوتا ہے کہ آسانی سے تشخیص ہوگئی لیکن روحانی مرض کا خود کو شکار ہی نہ سمجھا ‘ کسی نے یا شیخ نے مرض بتلایا تو ناراض ہو گئے، نہیں نہیں! اگر کوئی روحانی بیماری کی نشاندہی کردے تو پھر غصہ میں نہیں آنا چاہیے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اوہو! اگر یہ بیماری میری قبر میں میرے ساتھ گئی تو کیا بنے گا! یہ وہ سوچے گا، جس کے اندر موت کا یقین ہوگا، اللہ کا دھیان ہوگا اور اللہ کی ذات عالی سے جڑنے کا تعلق اور تعارف ہوگا۔
دل کو اللہ کی محبت کا عادی بنائیں
اللہ کے نام کی برکت حاصل کریں اللہ کے نام کے اندر اپنے آپ کو ڈوبنا سکھائیں، اپنے دل کو اللہ کی محبت کا عادی بنائیں۔ اپنی سوچوں کو اللہ کے تعارف اور تعلق کا عادی بنائیں‘ جب بنائیں گے پھر اپنی اولاد پہ بھی نظر جم جائےگی تو ترس آئے گا‘ پھر آخرت پہ بھی نظر جائے گی تو ترس آئے گا۔آج نہ کافر پر ترس ہے نہ اولاد پر ترس ہے ،اولاد کی روٹی کا ترس ہے، اس کے فاقوں کا ترس ہے، قیامت کے دن کی جہنم کی پکار جہاں پر 70 ہزار سال جہنمی پکارتا رہے گا خود فرشتوں کو ترس نہیں آئےگا۔ جہنم کے فرشتے اللہ کریم بہرے بنا دے گا، ان کو آواز ہی نہیں آئےگی۔ بعض کتابوں میں آتا ہے : اللہ تعالیٰ جہنم کے فرشتوں کو بہرہ بنا دے گا ان کو آواز ہی نہیں آئے گی اورانہیں بے ترس بنادے گا ان کو ترس ہی نہیں آئے گا۔ اگر اولاد کے لیے غم ہمارے دل میںآجائے اور پورے عالم کا غم ہمارے دل میںآجائے توپھر ِہمارے دل کی دنیا سمجھ لو کچھ بدلی ہے ‘ اس کے دل کے اندر کوئی غم آیا ہے کوئی فکرآئی ہے اگریہ نہیں آیا تو اس کا دل نہیں بدلا ہے۔
زمین بدلی، زماں بدلے، مکیں بدلا، مکاں بدلے
نہ تو بدلا، نہ میں بدلا، تو پھر بدلا تو کیا بدلا؟
تو اعمال کا نفع، اللہ کی ذات عالی کا تعارف، دل کو سنائیں، دل کو سمجھائیں۔ ہماری باتوں کا یہی نچوڑ ہے ۔ ہم اللہ سے دعا کریں کہ اللہ یہ جو اعمال کا نفع ہےاور دل کا تعلق ہے، دل کا تعارف ہے تیری ذات تک پہنچنے کیلئے کونسا راستہ اختیار کروں؟ اللہ کریم سے یہ دعا کریں،آپ حضرات میںسے بے شمارلوگ کہتے ہیںکہ ہم جمعرات کے درس میں آتے ہیںاور دعا میں شامل ہوتے ہیں ۔درس میں آنے سے ہماری مشکلات ٹل جاتی ہیں۔اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ اللہ جل شانہ کا لیا جانے والانام ہے۔اس کی وجہ اللہ پاک کی ذات عالی کا تعارف ہے۔ جو ابھی زبانوں پر آیا ہے، غور سے سمجھیںاللہ کا ذکرصرف ہماری زبانوںپر آیا ہے؟اور زبانوں کے بول ہی ہمیشہ دل میں اترا کرتے ہیں۔ کوئی شخص اگرکسی اخبار یا میڈیا کی خبر کو سچا نہ سمجھے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ یہ بی بی سی لندن کی خبر ہے ۔لفظ بی بی سی سن کر ہی وہ مان لیتے ہیں حالانکہ ہم نے بی بی سی دیکھا ہی نہیں لیکن بولتے بولتے سنتے سنتے ہمارے من کے اندر یہ یقین آگیا ہے کہ یہ خبر اگر بی بی سی لندن نے نشر کی ہے تو سچی ہوگی۔ ہمیںیقین سننے سے آیا ہے ناں؟ ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں ان کا دفتر کہاں ہے ۔ ان کاسارا نظام کیا ہے،ہم نے کچھ نہیں دیکھا۔ تو اس لیے یہ بولنے ، دیکھنے ، سننے کی جو مجالس اللہ پاک نے ہمیںدی ہیں ان سے محروم نہ رہا کریں ۔ (جاری ہے)
میں آپ سے درخواست کروںگا :درس میں آناآپ کے لیے مبارک ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اپنی خواتین کا احساس، انکا غم،انکی فکر بھی آپکے ذمے میںہے۔ اس کا بھی فکر کریں اور اس کے لیے بھی دعا کیا کریںاوراپنی دعائوں اپنی ذات کے ساتھ ساتھ سارے عالم کوبھی یاد رکھا کریں ۔
آخرت بہتر ہونے کا مطلب
اپنی دعائوں میں پاکستان کی ساری عوام،امت کے اربو ں انسانوں کو یاد رکھا کریں اور اپنی دعائوں میں ان حکمرانوں کو بھی یاد رکھا کریں کہ ان کے اندر آخرت کا احساس آجائے، اللہ کی ذات عالی کا تعلق اور تعارف آجائے ،ان کی آخرت بہترہوجائے۔ آخرت بہتر ہونے سے مراد کیا ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان،اعمال کی زندگی اللہ کی محبت اور آقا کملی والےﷺ کا نور آجائے، تو آخرت بہتر ہوگئی۔ اس لفظ کے پیچھے یہ حقیقت ہے تو ہماری امت کے ہر طبقے کے بارے میں عالم کے ہر طبقے کے بارے میں ہمارے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ہو‘ نفرت کا جذبہ نہ ہو‘ کوئی بھی طبقہ ہے، اس کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہو۔
یہ سبق میں آپکو اکثر یاد دہانی کے طور پر دیتا ہوں اور کبھی کبھی آپکی خدمت میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ امت کے ہر طبقے کے بارے میں ہمارے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں